جمہوریت کا قتل

چنڈی گڑھ کے میئر کے انتخابی تنازعہ کی سماعت کر رہی  سپریم کورٹ نے بی جے پی کو بڑا جھٹکا دیتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت کا قتل ہے۔ عدالت  نے  ریٹرننگ افسر کے خلاف مقدمہ  چلانے  کا بھی حکم دیا ۔ عدالت نے کہا،”یہ واضح ہے کہ افسر  نے بیلٹ پیپرز کے  ساتھ  چھیڑ چھا ڑ کی ۔ کیا اس طرح وہ انتخابات کرواتے ہیں؟ یہ جمہوریت کا قتل ہے۔ اس شخص کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہیے”۔ عدالت کا  یہ مشاہدہ    درست اور قابل  ستائش  ہے۔  لیکن قومی سطح کےایسے   مسائل  جو  حقیقت  میں  روزانہ  جمہوریت  کا قتل کرتے  ہیں  انکی  سنوائی  کرنے   میں کورٹ   زیادہ  دلچسپی نہیں دکھاتی  ہے۔ شاید  اسلئے کہ  تب  اسے  برسراقتدار حکومت کی آنکھوں میں  آنکھ  ڈالکر  بات  کرنی  پڑیگی ۔ایسے  موقوں   پر بیوروکریٹس کو قربانی کا بکرا بنانے کی زیادہ   گنجائش نہیں رہتی ،شاید  اسلئے بھی  ۔

چندی گڑھ کے حالیہ میئر کے انتخاب میں ریٹرننگ افسر کی جانب سے انڈیا الائنس پارٹیوں کے آٹھ ووٹوں کو بے کار   قرار دیے جانے کے بعد انڈیا الائنس کی جماعتوں نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا۔ ریٹرننگ افسر کی اس  حرکت  کی وجہ سے بی جے پی کے میئر کے امیدوار کی جیت ہوئی اسکے  باوجود   کہ ان کے پاس انڈیا کی اتحادی جماعتوں کے   مقابلے کم   ووٹ   تھے ۔

سپریم کورٹ نے اس معاملے میں غیر معمولی عجلت کا مظاہرہ کیا ۔ ایسا  ہونا  بھی  چا  ہیے  ۔ہمیشہ  ملک کے قانون کا سب سے بڑے نگہبان سے ایسے  ہی  توقع کی جاتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جب الیکٹورل بانڈ اسکیم، وی .وی. پی .اے. ٹی .اور اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے اٹھائے گئے دیگر خدشات جیسے بڑے اور اہم معاملوں کی بات آتی ہے، تو عدالت ان سنگین خدشات پر کارروائی کرنے میں بہت سست اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہے۔

متنازعہ الیکٹورل بانڈ اسکیم جسے اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے ٢٠١٧ میں فنانس بل کے طور پر پیش کیا تھا۔ یہ بل  مبینہ طور پر سیاسی فنڈنگ میں شفافیت لانے کے لئے   پارلیمنٹ  میں پیش  کیا گیا تھا ۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اسے عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ یہ شہریوں کی   معلومات کے حق کی خلاف ورزی ہے کیونکہ  اس اسکیم سے عطیہ دہندگان کو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنے کی اجازت ملتی   ہے- اسکی  وجہ   سے بڑی کارپوریشنوں کی جانب سے پیچھے  کے  دروازے سے  لابنگ ممکن ہو پاتی ہے۔

جب سے اس الیکٹورل بانڈ اسکیم کو نافذ کیا گیا ہے، بی جے پی کو الیکٹورل بانڈ کے ذریعے تمام پارٹیوں سے زیادہ رقم ملی ہے۔  ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارم (اے ڈی آر) کے اعداد و شمار کے مطابق 2016 سے 2022 کے درمیان الیکٹورل بانڈ کے ذریعے کل 9188 کروڑ روپے حاصل ہوئے۔ اور صرف بی جے پی کو اس رقم کا 57 فیصد سے زیادہ ملا۔ اس اسکیم نے واضح طور پر حکمراں جماعت کو  بے انتہا  فائدہ  پہنچایا  ہے ۔ اسی  کے  باسبب بی  جے پی   کے پاس تمام اپوزیشن جماعتوں کے مقابلے میں بے مثال  وسائل   اور پیسوں  کا    انمبار  لگ چکا  ہے ۔


یہ بھی پڑھیں: بی جے پی نے چندی گڑھ میئر انتخابات کو دھوکے سے جیتا


حقیقت میں اس اسکیم نے ان اداروں کی آزادی اور سالمیت کے لئے براہ راست خطرہ پیدا کیا ہے جو انتخابات کی نگرانی کرتے ہیں جیسے الیکشن کمیشن آف انڈیا بشمول عدلیہ اور دیگر ادارے جو عوام کی نظروں سے  تو اوجھل ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم عام بول چال میں کہتے ہیں کہ کام  بولتا ہے ۔ یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ یہ ادارے ان دنوں حکمران جماعت کے لئے بہت سازگار  اور  فائدہ  مند ہو گئے ہیں۔ اس سے  یہ حقیقت  صاف  طور  پر  ظاہر  ہو تی   ہے کہ یہ  ادارے  کتنی  حد  تک اپنی  خودمختاری اور آزادی سے  سمجھو   تہ  کر چکے ہیں ؟

سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈ اسکیم میں اس طرح کی جلدی نہیں دکھائی ہے جس طرح چندی گڑھ میئر کے انتخاب میں دکھائی گئی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے عدالت میں بار بار درخواستوں کے باوجود عدالت ان مقدمات پر کوئی  سنوائی  نھیں  کر رہی  ہے ۔ بلکہ  عدالت نے گزشتہ چند سالوں میں برسراقتدار حکومت کو الیکٹورل بانڈ اسکیم کی قانونی حیثیت سمیت بہت سازگار فیصلے دیئے ہیں۔

عدالت نے ہارس ٹریڈنگ، زبردستی اپوزیشن قانون  سازوں  سے اپنی پارٹی چھوڑنے جیسے معاملوں سے نمٹنے میں بھی منصفانہ رویہ اختیار نہیں کیا ہے، جس سے حزب اختلاف کے زیر اقتدار ریاستوں کو کئی بار  عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تازہ ترین معاملہ جو سامنے آیا ہے وہ ریاست جھارکھنڈ کا ہے جہاں حزب اختلاف کے قانون سازوں کو حیدرآباد لے  جایا  گیا   تاکہ  بی جے پی  ان قانون سازوں  تک نا پہنچ سکے ۔ یہ  سارے مقدمات بھی روزانہ کی بنیاد پر جمہوریت کے قتل کے مترادف ہیں۔ اگر عدالت واقعی جمہوریت کے قتل کو روکنے میں دلچسپی رکھتی ہے تو اسے فوری طور پر ان مقدمات پر سنوائی  کرنے کی ضرورت ہے۔

 

انگریزی میں پڑھیں

 

 

 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top