عمر خالد اور سپریم کورٹ کی ایک المناک کامیڈی

آ پ نے عمر خالد کے بارے میں تو سناہی ہوگا۔ ویسے آ پ کی کیا  ہی مجال کی عمر خالد کی سٹوری آ پ تک نا پہنچی ہو۔حکومت میڈیا سب مل کر عمر خالد کو ایک مثال جو بنانا چاہتے ہیں۔ پھر تو یہ کہانی ہر ایک ہندوستانی شہری تک پہنچنا لازمی ہی ہے۔آ پ کی کیا ہی حیثیت کہ آ پ اس کہانی کی  اندیکھی کر دیں۔

کبھی آپ کو اس کہانی کو پڑھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا یا آ پ کا دل یا دماغ آ پ سے نہیں کہتا کہ اب بہت ہو گیا اور اب  اس  نا  انصافی  کے خلاف آ واز اٹھا ہی دینی چاہیے۔ اس کے ڈائریکٹر سے عمر خالدکو اگلے  اپیسوڈ میں انصاف دلانے کے لیے کہہ ہی دینا چاہئے ۔اگر آ پ کا دل یا دماغ آ پ کو اتنا بھی کرنے کے لیے مجبور نہیں کر پا رہا ہے تو آ پ سمجھ لیں کہ آ پ بھی عمر خالد کی طرح ایک قیدی بن چکے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ عمر خالد جیل میں ہے لیکن ذہنی طور پر آ زاد  ہے -آپ اور ہم جیل سے باہر آ زادہیں لیکن ذہنی طور پر قیدی بن چکے ہیں۔ویسے آ پ اور ہم کر ہی کہہ سکتے ہیں۔

چلو نئی فلم آئی ہے اسکو دیکھتے ہیں۔کچھ ایسی ہی ذہنیت ہوگئی ہے ہماری۔ بس کچھ پل کے لیے برا محسوس ہوتا ہے ۔پھر پتا بھی نہیں چلتا کہ ہم کب، کس پل  انسٹاگرام پر ریلس دیکھنے  لگ جاتے ہیں۔ ویسے سیریس مت ہوجائیگا میں بس ایسے ہی woke بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ویسے بھی تو یہ ایک کہانی ہی ہے۔ورنہ اب تک عمرخالد کو ضمانت مل ہی گئی ہوتی۔جب ریپسٹوں کو اصل زندگی میں ضمانت مل جاتی ہے تو عمر خالد کو تو مل ہی جاتی۔

کہانی کے اس مہینے کے  episode میں ڈائریکٹر کی ہدایت پر عدالت نے پھر سے ایک بار عمر خالد کی ضمانت کی  سنوائی  کو سننے سے منع کر دیا۔ ری کیپ  (Recap)میں یہ بتانا ضروری ہے کہ عمر خالد 2020 کے دہلی فسادات کی منصوبہ بندی کرنے کے  ایک جھوٹے الزام میں جیل میں  سزا  کاٹ رہا  ہے۔اُسکی بے گناہی کے بارے میں آڈینس کوپہلے سے ہی پتا ہے۔آڈینس میں اکثریت کو تو اسے جیل میں  دیکھ کر مزہ بھی آنے لگا ہے ۔کیوں  نا  ہو، اس کا  نام    وکاس    یا روی    نہیں  ہے نا ۔

عدالت  ہر ایپیسوڈ میں عمر خالد  کیس کی سنوائی بس ایسے ہی بلا وجہ ٹال دیتی ہے۔ آ ج پھر اسی بات کو اس مہینےکے ایپیسوڈ میں دہرا دیا گیا۔ہم اپنی عام بول چال کی زبان میں بولتے ہیں نا کہ ‘کل کبھی نہیں ہوتا’ کچھ ایسا ہی معاملہ عمر خالد کے ساتھ  اس کہانی میں ہو رہا ہے۔حقیقت میں کل کبھی نہیں آ تا۔پھر ایک کہانی کے کل کے بارے میں کیا ہی کہنا۔

پچھلے ایپسوڈز میں سپریم کورٹ نے  عمر خالد کے کیس کی سنوائی ملتوی کرنے کے لیے یہ سارے وجوہات دیئے تھے۔کہ

 جج خالی نہیں ہیں۔

 وکیل نہیں آیا۔

 جج صاحب سیڈیشن قانون کو پھر سے پڑھنا چاہتے ہیں ۔

 اس کیس  کو دوسرے کیس کے ساتھ کلب کرنا چاہتے  ہیں۔

آخری مرتبہ  جب  سنوائی  کی تاریخ  آئی تھی  تو ‘آخری مرتبہ’ کہہ کے پچھلی مرتبہ سنوائی کی اگلی  تاریخ دیئے تھے۔

 یہ بھی کہے تھے کہ یہ کیس ہمارے ترجیحات میں سب سے اوپر ہے۔ جسے وہ اب تک نیچا نہیں کرپائے۔

لیکن پھر شایدجج صاحب کو وقت نہیں مل پاتا ہوگا۔لیکن ہم جج کے بارے میں کیوں سوچ رہے ہیں؟ وہ تو ڈائریکٹر جیسا بولیگا جج ویسے ہی ایکٹنگ کریگا نا۔پاگل ہوں میں ۔   اصل زندگی کی طرح اس کہانی کی تصویر بنانے لگتا ہو ں۔

لیکن پھر اصل زندگی میں  بھی عدلیہ کی حالاتِ زار اور زر دیکھ کر اُداس ہوجاتا ہوں۔اصل زندگی میں تو جسکے پاس پیسے ہیں انصاف انہیں کو ملتا ہے۔  اور یہ بات سب کو پتا ہے اب چاہےمجرم نے کتنے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کیوں نا کیا ہو ۔ پتا نہیں کیوں کبھی کبھی ایک آئیڈیل دنیا کی تصویر ذہن میں بننے لگتی ہے۔پھر بھول جاتا ہوں کہ اصل زندگی میں انصاف نہیں ہوتا بلکہ  انصاف کی خریدو فروخت ہوتی ہے۔جیسے

 مان لیجئے اگر منسٹر صاحب کا بیٹا جو ابھی چار کسانوں کو اپنی تھار جیپ سے کچل کر آیا ہو   اُسکو ضمانت مل ہی جائےگی۔

 حکومت کی اس فلاں ریاست میں زبردستی سرکار بنی ہے اسکو قانونی بنا ہی  دیا جائے گا۔

 جیسے وزیرِ اعظم کو دنیا کا سب سے مقبول ترین لیڈر ہیں کہہ کے بدلےمیں جج خود کوکسی ادارے کے چیئرمین کی پوسٹ کے لیے پیشکش کردیگا۔

ایوانِ بالا میں ریٹائرمنٹ کے بعد سیٹ پکی کروانی ہے اُسکے لیے منتری صاحب کا پھنسا پروجیکٹ بھی  عدلیہ میں کلیئر ہوجائیگا ۔

خیر واپس آتے ہیں عمر خالد کی کہانی میں۔


مزید پڑھیں:گیان وا پی کیا بابری کی راہ پر چل پڑی ہے ؟


مجھے لگتا ہے کہ اس کہانی میں ڈائریکٹر کو لگتا ہے کہ عدالت کو لگتا کہ عمر خالد کو لگتا ہے کہ اسکو جیل میں اچھا لگتا ہے۔ اور اُسکا ٹائم جیل میں بہت اچھا کٹ رہا ہے۔پڑھائی کرنے کا پورا وقت ملتا ہے۔پھر کچھ لکھنا بھی ہوتا ہے اُسکے لیے بھی اچھا وقت مل جاتا ہے۔اسکو چھٹی بھی تو مل جاتی ہے۔ابھی پانچویں  اپیسوڈ میں اسکو اپنی بہن کی شادی میں باقاعدہ سرکاری گاڑی میں چھوڑ کر آئے تھے۔پھر  بھی اُسکا من گھر پر نہیں لگا اور خود ہی واپس جیل میں آگیا۔اب بتاؤ جج کیا ہی کر سکتے ہیں۔

پھر بھی ہر ایپیسو ڈ میں جج صاحب وقت نکالتے ہیں  ۔یہ کہنے کےلئے :

 کہ جج صاحب مصروف  ہیں۔

کہ جج صاحب  چھٹی پر چلے گئے تھے  اب سیڈیشن قانون انکو  پھر سے اسٹڈی کرنا پڑےگا کیس کی سنوائی کرنے کے لئے۔ تبھی تو وہ فیصلہ کر پائیں گے۔

 کہ وہ  اس کیس کو اور دوسرے کیس کے ساتھ کلب کر کے ایک ہی بار میں سنیں گیں۔

کہ وہ آخری بار کیس کو اگلی تاریخ کے لیے ملتوی کر رہے ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔

اہ! شاید میں نے اپنی بات کو دہرا دیا۔ویل دیٹس  دی پوائنٹ۔سپریم کورٹ کی فائنل ہیرنگ عمر خالد کی ضمانت کے سلسلے میں کبھی نہ ختم ہونے والی ایک کہانی ہے ۔ یہ کہانی اتنی مشہور اور مقبول  ہو چکی ہے کہ میڈیا بھی اس کہانی کو  فری  میں  سناتا اور  دکھاتا  ہے۔کہانی اتنی اچھی ہے کہ وہ دکھاتا  آ رہا ہے۔پر کبھی سوال نہیں کرتا کہ آ خر کار عمر خا لد کو ضمانت کیوں نہیں دی جاتی۔ا ہ! شاید پھر سٹوری ہی ختم ہو جائے گی اور کہانی کی  پبلک  اپیل ختم   ہوجایگی۔

بہرحال کہانی بہت اچھی ہے لیکن اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔اس کی بنیاد پر آ پ یہ مت کہنے لگ جائیے گا کہ دیکھو یہ کیسی مضحکہ خیز نا انصافی ہے۔ویسے  ایک کہانی کے ایک خیالی  کردار   کے لیے اپنی اصل زندگی میں انصاف کے لیےکیا ہی سوال اٹھائیں۔بس من میں  ہی انصاف مانگ لیتے ہیں۔

دیکھتے  ہیں   اس مہینے کے اگلے ایپیسوڈ میں کیا ہوتا ہے ۔


مزید پڑھیں:اپوزیشن مکت بھارت یا بدعنوانی سے پاک بھارت


Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top