جھارکھنڈ کے وزیر اعلی ہیمنت سورین کو استعفیٰ پیش کیے تین دن گزر چکے ہیں۔ پھر بھی گورنر سی پی رادھا کرشنن نے نئی حکومت بنانے کے لئے کسی کو نہیں بلایا ہے اور نہ ہی چمپی سورین کو ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کے لئے کہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے جھارکھنڈ میں گورنر صاحب لاپتہ ہو گئے ہیں۔
ہیمنت سورین کے استعفے اور گرفتاری سے پہلے جھارکھنڈ کے اگلے وزیر اعلی کے لئے چمپائی سورین کا نام تجویز کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق جے ایم ایم، کانگریس اور آر جے ڈی کی حلیف جماعتوں نے بھی چمپائی سورین کے نام پر اپنا اتفاق ظاہر کیا ہے۔ لیکن انہیں حکومت بنانے کی دعوت نہیں دی جا رہی ہے۔
بی جے پی کی جانب سے مقرر کردہ گورنروں کی جانب سے حالیہ برسوں میں دیگر ریاستوں میں کئی بار کی جانے والی سیاسی بد عنوانی کے خوف کی وجہ سے جے ایم ایم ،کانگریس اور آر جے ڈی کے قانون ساز کیمرے کے سامنے اسمبلی میں اکثریت کا ثبوت پیش کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن اس کے باوجود گورنر انہیں حکومت بنانے کے لیے نہیں بلا رہے ہیں۔
گورنر ایک سیاسی ہتھیار
اس حکومت کے تحت گورنر کے عہدے کو انتہائی سطح پر سیاسی رنگ دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ عام حالات میں بھی حزب اختلاف کی حکمرانی والی ریاستوں میں یہ گورنر عوامی طور پر منتخب حکومتوں کے کام میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ کیرالہ، مغربی بنگال، تمل ناڈو، تلنگانہ اور دہلی کے گورنر حکومت یا مقننہ کے کام میں مداخلت کی وجہ سے ہمیشہ خبروں میں رہتے ہیں۔
موجودہ حکومت کے ذریعہ منتخب گوورنر ز اب اپنے جانبدارانہ طرز عمل یا رویے کو چھپ کر یا نزاکت سے انجام نہیں دیتے ہیں بلکہ وہ اسکو کھلے عام اور واضح طور پر کرتے ہیں.
ابھی کچھ ہی دن پہلے نتیش کمار نے مہاگٹھ بندھن کے وزیر اعلی کے طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیکر این ڈی اے میں شامل ہوئے تھے ۔نتیش کمار کو بہار کے گورنر نے استعفے کے دن ہی حلف لینے کے لئے مدعو کر دیا تھا۔ یہ گورنر کی طرف سے ایک صحیح قدم بھی تھا ۔گورنر نے توقع کے مطابق اپنی ذمہ داری کو نبھایا۔ کیونکہ نتیش کمار کو این ڈی اے اتحادیوں کی حمایت کی وجہ سے واضح اکثریت حاصل تھی ۔ ایسے حالت میں گورنر کو آئینی طور پر ڈیسکریشنری پاور حاصل نہیں ہوتی ہے ۔اسی وجہ سے گورنر نے انہیں فوری طور پر حکومت بنانے کی دعوت دی تھی۔
مزید پڑھیں:عمر خالد اور سپریم کورٹ کی ایک المناک کامیڈی
اسی طرح کی صورتحال ہے جھارکھنڈ میں بھی تھی لیکن یہاں گوورنر نے بہار کی طرح فورا جے ایم ایم کو حکومت بنانے کے لئے مدعو نہیں کیا ۔ایسا صرف اسلئے کہ یہاں پر اپوزیشن کی سرکار بننی تھی ۔
گوورنروں کی جانب سے اس طرح کا جانبدارانہ رویّہ حزب اختلاف کی حکمرانی والی ریاستوں میں ایک معیاری طریقہ کار بن چکا ہے ۔ جے ایم ایم کو فوری طور پر حکومت بنانے کے لئے مدعو نا کر نے کے پیچھے مقصد ان پارٹیوں کے قانون سازوں کو ڈرانا اور دھمکانا تھا ۔ تاکہ وہ ان پارٹیوں سے استعفیٰ دے کر انکی سرکار نا بننے دیں ۔ بی جے پی یہ کام پچھلے کچھ سالوں میں کئی بار کر چکی ہے ۔بی جے پی کو ان غیر اخلاقی اور آئینی طور پر غیر قانونی سرگرمیوں میں طاقت کے بل پر مہارت حاصل کرچکی ہے ۔
آپ کو یاد ہی ہوگا مہاراشٹرا میں دیویندر فڑنویس کے پاس حکومت بنانے کے لئے واضح اکثریت نہیں تھی، لیکن اسکے باوجود مہاراشٹر کے گورنر نے انہیں ریاست کے وزیر اعلی کے طور پر حلف لینے کی دعوت دی تھی۔ ۲۰۱۴ میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد حالیہ برسوں میں اس طرح کی واقعات کی بہتات ہو گئی ہے ۔چونکہ جھارکھنڈ میں آدیواسی پارٹی کی قیادت والے اتحاد کی حکومت ہے، اس لئے گورنر اپنی ذمہ داری منصفانہ طریقے سے انجام نہیں دے رہے ہیں ۔ یہ آئینی دفعات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ لیکن پرواہ کس کو ہے ؟