22 جنوری کورام مندر کی افتتاح کے بعد اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف تشدد کے حالیہ واقعات نے ایک بار پھر ہندوستان کی سیکولر جماعتوں کی گہری خاموشی کو بے نقاب کر دیا ہے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب یہ سیکولر پارٹیاں اقلیتوں کے خلاف ہو رہے تشدد پر خاموش رہی ہیں اور برسر اقتدار حکومت کو چیلنج کیا ہو۔بلکہ ایسا رویہ ان جماعتوں کا معمول بن گیا ہے۔اس کے باوجود اقلیتی گروہ خاص کر کر مسلمان اور عیسائی اب بھی ان پارٹیوں سے اپنی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔حالات اتنے خراب اور بدتر ہیں کہ ان کے پاس ان مخالف سیاسی جماعتوں پر امید اور بھروسے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی اقلیتوں کی قسمت ان بے حس مخالف جماعتوں سے ہمیشہ کے لئے جڑ گئی ہے۔چاہے یہ سیاسی سیکولر جماعتیں ان پر ہو رہا ہے ظلم کے خلاف آ واز اٹھائیں نہ اٹھائیں وہ ہمیشہ ان سے امیدیں وابستہ رکھے رہیں گے۔
ریاست اور اقلیتوں پر تشدّد
اس کے باوجود کہ یہ بات بہت اچھے سے عیاں ہے کہ موجودہ حکومت براہ راست اقلیتوں کے خلاف ہو رہے تشدد میں ملوث ہے، یہ سیکولر سیاسی مخالف پارٹیاں پھر بھی خاموشی اختیار کر صرف تماشہ بین بن کر رہ گئی ہیں۔ہندو وادی گروہوں کے ذریعے کیے جا رہے توڑ پھوڑ اور تشدد کی ویڈیو خود قانون ساز سوشل میڈیا پر شیئر کر کے خوشی منا رہے ہیں۔پھر بھی ان سیاسی مخالف پارٹیوں سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ کم سے کم ایسے فرقہ وارانہ بیانوں کی تردید ہی کر دیں۔
یہ سیکولر مخالف جماعتیں اتنی خائف ہیں کہ ان کو لگتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی حمایت میں کچھ بھی بول دیں گے تو ہندو اکثریتی جماعت انکو الیکشن میں ووٹ نہیں دے گی ۔مخالف سیکولر جماعتوں کی یہ سوچ نہ صرف ان کے سیاسی مستقبل کے لیے ایک سوسائیڈ کرنے کے مانند ہے بلکہ ملکی جمہوری اقداروں اور ائینی اصولوں کے سراسر خلاف بھی ہے۔ان سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی ساری سیاست بی جے پی کے ذریعے کھینچی ہندوتوا سیاسی لکیر کے اندر ہی سمٹ کر رہ گئی ہے۔
بلا شبہ سیکولر جماعتوں کی یہ خاموشی ملک کی آ ئینی اقدار اور اور جمہوری اصولوں سے انحراف کی ایک بہترین مثال ہے ۔ایسی مجرمانہ خاموشی کبھی بھی ایک پائیدار آئینی اقدار سے لیس اور جمہوری اصولوں پر مبنی سماج کی تشکیل نہیں دے سکتے۔