ایک بہت ہی غیر متوقع فیصلہ سناتے ہوئے آج سپریم کورٹ آف انڈیا نے بی جے پی حکومت کی جانب سے انتخابی فنڈنگ میں شفافیت لانے کے لیے نافذ کی گئی الیکٹورل بانڈ اسکیم کو مسترد کر دیا۔ پانچ ججوں کی بنچ نے متفقہ طور پر ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت معلومات کے حق کا حوالہ دیتے ہوئے اس اسکیم کو غیر آئینی قرار دیا۔ عدالت نے کمپنیز ایکٹ اور انکم ٹیکس ایکٹ میں ترامیم کو بھی خارج کردیا جس میں اس اسکیم کو لاگو کرنے کے لئے ترمیم کیا گیا تھا ۔
الیکٹورل بانڈ کی قانونی حیثیت کو مختلف اسٹیک ہولڈرز نے دو بنیادوں پر عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ پہلا یہ کہ کیا اس اسکیم کے تحت سیاسی پارٹیوں کو اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر بانڈ کے ذریعہ پیسے دینا رائٹ ٹو انفارمیشن کی آئینی حق کی خلاف ورزی ہے ؟دوسرا یہ کہ کیا سیاسی جماعتوں کو لامحدود کارپوریٹ فنڈنگ جمہوریت میں آزاد انہ اور منصفانہ انتخابات کے اصول کی خلاف ورزی ہے؟ کیس لڑ رہے وکیلوں نے عدالت میں یہ دلیل دی کہ اس اسکیم نے گمنام اور غیر شفاف ڈونیشن کو قانونی بناکر حکومت کی کارپوریٹ ورلڈ کے لئے پیسے دو اور پالیسی لو کو ممکن بنا دیا ہے جو جمہوری اصولوں کے بالکل خلاف ہے ۔ کارپوریٹ گھرانے پیسے دیکر اور بغیر اپنی شناخت ظاہر کیے ہوئے حکومت کی پا لیسیوں کو براہ راست طور پر اثر انداز کر رہے تھے ۔
- رام للا کی مذہبی پران پرتسٹھا یاسیاسی فتح کا جشن ؟
- گیان واپی مسجد تنازعہ: ایک مختصر تاریخ
- اپوزیشن مکت بھارت یا بدعنوانی سے پاک بھارت
عدالت نے اس فیصلے میں پایا کہ اس اسکیم نے معلومات کے حق اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات دونوں اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ عدالت نے کہا کہ معلومات کا حق ،اظہار رائے کی آزادی کا لازمی جزو ہے اور رائے دہندگان کو یہ جاننے کا حق ہے کہ سیاسی جماعتوں کو فنڈنگ کو ن کر رہا ہے ۔
یہ فیصلہ حکمراں بی جے پی حکومت کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے جو صرف چند سالوں میں اکیلے 6000 کروڑ روپے سے زیادہ کی بھاری رقم اس اسکیم کے تحت وصول کیا ہے ۔
حکومت نے سیاست میں کالے دھن اور بدعنوانی کو روکنے کے لئے اصلاحاتی اقدام کے طور پر اس اسکیم کا دفاع کیا تھا۔ تاہم عدالت نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسکیم ان اصولوں کی الٹے طور پر بالکل خلاف ورزی کرتی ہے ۔ عدالت نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو یہ بھی ہدایت دی کہ وہ انتخابی بانڈ حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن آف انڈیا کو فراہم کرے۔