آرکئیو لوجیکل سروے آ ف انڈیا(A S I)کی تازہ رپورٹ جو 839 صفحات پر مشتمل ہے نے انکشاف کیا ہے کہ گیانواپی مسجد کے نیچے ایک پرانی مندر ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔اے. ایس. ائی. کی رپورٹ کےاس انکشاف کے بعد ممکنہ طور پر پہلے سے گرمائی ہندو مسلم سیاست پر ایک دھماکہ خیز اثرات ہونے والے ہیں۔یہ سوال بہت لوگوں ذہنوں میں گردش کرنے لگے ہیں کہ کیا گیان وا پی کیا بابری کی راہ پر چل پڑی ہے.
ہندوستان میں اس سال پارلیمنٹ الیکشن ہونے ہیں۔دائے بازو کی سیاسی طاقتوں اورانکے سوشل میڈیا جنگجوؤں کے لیے یہ انکشاف مسلم مخالف مہم چلانے کے لیے کافی ہے۔اس انکشاف کے بعد سوشل میڈیا ٹرولز نے پہلے ہی ایک جنگ چھیڑ دی ہے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آنے والے وقت میں گیان واپی مسجد کیس ہندوستان میں ہندو مسلم مخالف سیاست کے اگلے فلیش پوائنٹ کا آغاز کر سکتی ہے۔
گیان واپی مسجد سروے
وارانسی کی ایک مقامی عدالت نے اے. ایس. ائی. کے ذریعے گیان واپی مسجد کے سروے کا حکم دیا گیا تھا۔سروے کا مقصد یہ تھا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا مسجد کسی ہندو مندر کے اوپرتو تعمیر نہیں کی گئی تھی۔سروے میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ مسجد کی بنیاد کے نیچے دسویں یا بارہویں صدی کے مندر کے ثبوت ملیں ہیں۔اس پیش رفت نے ہندوستان میں انگنت دیگر مساجد کی قسمت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے جو شدت پسند ہندؤ ں کے مطابق یہ مساجد مندروں کو مسمار کر کے بنائی گئی تھیں۔اے ایس آئی کی اس انکشاف سے ” ایودھیا تو بس ایک جھانکی،متھرا ،کاشی باقی ہے”۔ کا خواب پورا ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ سب سے حیرانی والی بات یہ ہے کہ یہ سارا ڈرامہ 1991 کا قانون لاگو ہونے کے بوود ہو رہا ہے ۔ یہ قانون ایسے مذہبی مقامات جو 1947 سے پہلے کے بنے ہوئے ہیں دوسرے مذہب کے لوگوں کو ملکیت کا دعوہ کرنے سے روکتا ہے۔ حالانکہ بابری مسجد کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا۔
دائیں بازو کی شدت پسند فریقوں نے اے ایس ائی کی رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔ان کو ایودھیا بابری مسجد کی طرح ایک نیا مسئلہ ہاتھ لگ چکا ہے۔بہت سے دانشور اور لوگ سوشل میڈیا اور دیگر جگہوں پر پہلے ہی پیشنگوئی کر چکے ہیں کہ یہ تنازعہ بابری مسجد کی راہ پر چل پڑا ہے۔1992 میں ایک پاگل ہجوم نے سولہویں صدی کی مسجد کو اس دعوے کی بنیاد پر مسمار کر دیا تھا کہ یہ رام جنم بھومی پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس انکشاف کے بعد گیانوا پی مسجد کی قسمت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گیان وا پی تنازعہ واضح طور پر عبادت گاہ ایکٹ کی صریحتا خلاف ورزی کرتا ہے۔اس اہم قانون کو نافذ کرنے میں عدالت کوئی انٹرسٹ نہیں دکھا رہی۔اسطرح عدالت بھی ایک بار پھر سے اپنی ذمے داریوں سے رو گردانی کر اکثریتی مذہبی جذبات کو مطمئن کرنے کی کھلی چھوٹ دے رہی ہے۔
انگلش میں پڑھیں- کلک کریں.