گیان واپی مسجد اتر پردیش کے ضلع بنارس میں واقع ہے۔بابری مسجد جتنی بڑی تو نہیں لیکن اس کی بھی ایک لمبی قانونی لڑائی کی تاریخ ہے۔یہ مسجد کاشی وشوناتھ مندرکے بالکل بغل میں واقع ہے جو بھگوان شیوسے منسوب مندر ہے۔ہندو فریوں کا دعوی ہے کہ یہ مسجد ایک قدیم مندر کاشی وشو ناتھ کے کھنڈرات پر تعمیر کی گئی تھی۔انکا ماننا ہے کہ مسجد کے اندر شیولنگم چھپا ہوا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسجد مندر توڑ کر کے بنائی گئی تھی۔اس مضمون میں ہم گیان واپی مسجد تنازعہ: ایک مختصر تاریخ پر روشنی ڈالیں گے.
تنازعہ کی شروعات کیسے ہوئی
گیان واپی مسجد کے بارے میں یقینی طور پرکچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کب بنی۔لیکن بہت لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ 17ویں صدی میں مغل بادشاہ اورنگزیب نے ایک مندر کو توڑ کر کے بنائی تھی۔اکبر کے دور میں اس مندر کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔بہت سی تاریخ داں اس بات کو مانتے ہیں کہ جو اصل مندر تھی اس کو بارہویں صدی میں قطب الدین ایبک نے توڑ دیا تھا۔پھر دہلی سلطنت کے دور حکومت میں اس کی جگہ پر ایک مسجد کی تعمیر کی گئی تھی ۔
برطانیہ دور حکومت میں ہندو مسلم تعلقات بہت ہی خراب ہوئے۔اس میں انگریزوں کا بہت بڑا رول رہا ہے۔ یہ لیگیسی ہندوستان آزاد ہونے کے بعد کبھی ختم نہیں ہوا۔ہندوستان 1947 میں آزاد ہوا،اور اس کے ساتھ ہی ایک مسلمان ریاست جس کو پاکستان کہا جاتا ہے ہندوستان سے الگ ہوا تو ہندو مسلم تعلقات میں درار اور گہری ہوتی چلی گئی۔
ہندوستان میں بھی ہندو قوم پرستی کے نام پر ایک سیاست شروع ہوئی۔جس کا مقصد ہندوستان کو بھی ایک ہندو ریاست یا ہندو راشٹر بنانا ہے۔جس میں مسلمان عیسائی وغیرہ دوسرے درجےکے شہری ہونگے ۔
ریلیجس پارلیمنٹ
1984 میں ہندوؤں کی پہلی ریلیجس پارلیمنٹ ہوئی جس میں انہوں نے تین اہم مسجدوں پر جن پر ان کا دعوی ہےکہ یہ مسجدیں مندر توڑ کر بنائی گئیں تھیں واپس لینے کا قرار داد پیش کیا۔ یہ تین مسجدیں ایودھیا(بابری مسجد- رام کی جائے پیدائش) ،متھرا (ہندو دیوتا کرشن کی جائے پیدائش )اور ورانسی(مندرکو مسمار کیا گیا تھا)میں واقع ہیں ۔اس کے بعد ہی 1980 اور 90 کے دہائی میں مندر پر سیاست بہت زیادہ گرما گئی۔80 کے ہی دہائی میں بی جے پی وجود میں آی۔لال کرشن اڈوانی کی اگوائی میں بی جے پی نے پورے ملک میں رام مندر بابری مسجد توڑ کر بنانے کے لیے جارحانہ رتھ یاترائں نکالیں ۔بالا آ خر، 1992 میں بابری مسجد کو منہدم کر دیا۔
اس سے ایک سال پہلےوزیراعظم نرسمہا راؤ کی سرکار نے پلیسس آ ف ریلیجس ایکٹ پاس کیا تھا۔اسی سال1991 میں گیان واپی مسجد پر بھی ہندو فریق نے کورٹ میں عرضی داخل کی کہ گیان واپي مسجد کی زمین ہندوں کو منتقل کر دی جائے۔ مسجد کمیٹی نے اس پٹیشن کو بنارس کے کورٹ میں چیلنج کیا لیکن کورٹ نے1998میں ان کی عرضی خارج کر دی۔لیکن الہ اباد ہائی کورٹ نے اسی سال اس کیس پر اسٹے لگا دیا۔تب سے یہ کیس 2019 تک ایسے ہی پڑا رہا۔2019 میں ایودھیا پر فیصلہ آ نے کے بعد جسے سپریم کورٹ نے ہندو فریق کو دے دیا،گیان واپی کو لیکر غیر معمولی طور پر پھر سے سنوائی شروع ہوئی۔اس کا ایک مختصر تاریخی ٹائم لائن یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
2019 کی عرضی: کاشی وشوناتھ میں دیوتا کے ایک ‘اگلے دوست’ (next friend)نے مسجد کی جانچ پڑتال آثار قدیمہ(archaeology) کے مدد سے جائزہ لینےکے لئے ایک عرضی دائر کی۔
2020 کا حکم امتناع: 1991 کے درخواست گزاروں نے اصل عرضی کی سماعت کے لئے وارانسی کی ضلع عدالت سے رجوع کیا۔ لیکن الہ آباد ہائی کورٹ نے اس پر روک لگا دی .اور اس پر فیصلہ محفوظ رکھا ۔
2021 کا حکم: وارانسی کی ایک سول عدالت نے حکم امتناع کے باوجود مسجد کی اصل جانچ پڑتال کے لئے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) کو تحقیقات کا حکم دیا۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے اس معاملے پر ایک بار پھر روک لگا دی اور سول کورٹ کو پھٹکار بھی لگائی۔
2021 کی عرضی: پانچ ہندو خواتین نے مسجد کے اندر ہندو مورتیوں کی پوجا کرنے کی درخواست دائر کی۔
2022 سروے: ایک سول جج نے مسجد کا ویڈیو گرافک سروے کرنے کے لئے ایک ایڈوکیٹ کمشنر مقرر کیا۔
2022 چیلنج: مسجد کمیٹی نے سروے اور ایڈوکیٹ کمشنر کے منتخبی کے فیصلے کو چیلنج کیا، لیکن عدالت نے ان کی درخواستیں خارج کردیں۔
2022 چیلنج: مسجد کمیٹی نے عبادت گاہ ایکٹ ١٩٩١ کا حوالہ دیتے ہوئے مسجد کے ویڈیو گرافک سروے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔
2022 کا حکم: سپریم کورٹ نے سروے پر روک نہیں لگائی، لیکن اس معاملے کو ایودھیا معاملے کی سماعت کرنے والی بنچ کے ذریعہ سماعت کے لئے کہا۔
سال 2022: وارانسی سول کورٹ نے مسجد کے اس علاقے کو سیل کرنے کا حکم دیا جہاں مبینہ طور پر شیو لنگم پایا گیا تھا۔ مسجد کمیٹی نے اس فیصلے پر اپنا اختلاف درج کرایا ۔
2022 کی سماعت: ایودھیا معاملے میں شامل ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ نے معاملے کی سماعت کی اور شیو لنگم کی حفاظت کرنے اور ساتھ ہی پھر سے نماز پڑھنے کی اجازت دینے کا حکم دیا۔
2022 کا سروے: سروے کمیٹی نے مسجد کے نیچے ہندو مندروں اور مورتیوں کے ثبوت ملنے کی اطلاع دی۔
2022 کی سماعت: مسجد کی طرف سے پیش ہوئے وکیل شمیم احمد نے دلیل دی کہ مسجد وقف بورڈ کی ملکیت ہے۔ جسے ضلع جج نے مسترد کردیا ۔
2023 کا سروے: وارانسی ضلع کے ذریعے دیے گئے اے ایس آئی سروے میں اے ایس آئی سے کہا گیا کہ وہ اس بات کا تعین کریں کہ آیا مسجد ‘ہندو مندر کے پہلے سے موجود ڈھانچے پر تعمیر کی گئی تھی’۔
2024: عدالت میں پیش کی گئی ASI رپورٹ 25 جنوری 2024کو دونوں فریقوں کے مدعی کو دی گئی۔ اس نے مسجد کے نیچے ایک ہندو مندر کے ثبوت کا انکشاف کیا-