‏ رام للا کی مذہبی پران پرتسٹھا یاسیاسی فتح کا جشن ؟

ایودھیا میں زیرے تعمیر  مندر میں بھگوان رام کی مورتی نصب کرنے کی تقریب جسکو  پران پرتسٹھا کہا جاتا  ہے ،ان لاکھوں ہندؤوں کے لئے خوشی کا موقع تھا جو رام کو اپنا سب سے بڑا دیوتا مانتے ہیں۔ ‏‏تاہم، یہ تقریب ہندوتوا حامیوں کی طرف سے کی جانے والی  نفرتی ریلیوں  اور متعدد مسلم و عیسائی علاقوں میں توڑ پھوڑ کی کارروائیوں سے داغدار ہوئی ۔یہ  الگ مسئلہ ہی ہے کی کس طرح  ایک صدیوں پرانی مسجد کو مسمار کرکے   ایک مندر کی تعمیر کی جارہی ہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ  ہندو فریق  کے حق میں دینا اس  بات کو  کہتے ہوئے کہ کورٹ کو ایسے کوئی ثبوت نہیں  پیش کئے گئے جس میں  یہ بات صاف طور پر ظاہر ہو کہ مسجد مندر  توڑ کر بنائی گئی تھی ۔بلکہ کورٹ نے یہاں تک اپنے فیصلے میں لکھا  کہ جب مسجد بنائی گئی  اس وقت  تک کئی صدیاں گزر چکی تھیں ۔اسکے  باوجود کورٹ کا فیصلہ ہندو فریق کے حق میں دیا گیا ۔اس فیصلے سے  ہندوتوا دادی طاقتوں کو بےپناہ  قوت اور طاقت کے بل پر کچھ بھی کرنے کی مانوں کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔‏ رام للا کی مذہبی پران پرتسٹھ سے زیادہ انکے کے لئے یہ  سیاسی فتح کا جشن ہے ؟

ہندوتوا  نظریہ  اور رام مندر

ہندوتوا  (Hindutva) – ہندو قوم پرستی  پر مبنی  ایک  انتہا  پسند  نظریہ  ہے ۔ انکا مقصد ایک  ہندو ریاست قائم کرنے اور مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے حقوق اور شناخت  کو ختم کرکے انکو ہندوتوا کے  سوچ میں مدغم  کرلینا  ہے۔تاکہ انکی اپنی کوئی شناخت باقی نا رہے ۔ لہذا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)    اس  نظریئے کی تبلیغ و اشاعت زور وشور سے کرتی ہے ۔ آر ایس ایس اور اس سے وابستہ ہندوتوا گروہوں  نے رام مندر تحریک میں اہم کردار ادا کیا  جو 1980 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی اور 1992 میں ہندو انتہا پسندوں کے ہجوم نے 16 ویں صدی کی بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ ‏‏اس مسجد کو رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا ۔ اس واقعے نے ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دیا۔ جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے  تھے ، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ ہندوستانی سپریم کورٹ نے 2019 میں ایک متنازعہ فیصلے میں مسجد کی جگہ کو  ہندو فریق کو دے کر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کی تھی۔بہر حال ٢٢ جنوری کا دن رام للا کو انکے جائے پیدائش کے مقام پر نصب کرنے کا دن تھا۔ہندو عقیدت کے مطابق اب اس تقریب کے بعد رام للا  میں جان آچکی ہے۔اب وہ اپنے عقیدت مندوں کی آواز اور دعاؤں کو سن سکتے ہیں اور قبول کرسکتے ہیں۔

سیاسی منچ

لیکن  ‏‏رام للا کا پران پرتسٹھا صرف ایک مذہبی تقریب ہی  نہیں تھا  بلکہ ہندوتوا وادی طاقتوں کے لئے ایک سیاسی منچ بھی تھا ۔اس میں کوئی شق  نہیں کہ  اسی  تحریک کے سبب، 2014 سے بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو بےپناہ  طاقت اور اثر و رسوخ حاصل ہوا ہے  ۔ایسا مانا جاتا ہے کہ بی جے پی حکومت اسی تحریک کے بدولت اتنی مضبوط  اور ہندوفریق کے درمیان  عوامی مقبولیت حاصل میں کامیاب رہی ہے ۔اس تقریب  اسی سال ہونے والے لوک سبھا الیکشن سے جوڑکر دیکھا جا سکتا ہے۔چونکہ  بھگوان رام ہندو مذہب میں ایک مقبول دیوتا ہیں ۔بی جے پی ایسے وقت میں جب الیکشن  بلکل قریب ہےاور مندر ابھی پورا تعمیر بھی نہیں ہوا ہے   ،یہ تقریب منعقد کرا کر خصوصاً ہندو (voters) رائےدہندگان کو یہ یقین دلانا چاہتی کی کہ مندر اسی کی کوششوں کا نتیجہ  ہے ۔ اسی وجہ سے مختلف سیاسی  مخالف پارٹیاں  آر ایس ایس کے ساتھ نظریاتی طور پر وابستہ بی جے پی پر اکثریتی ایجنڈے کو فروغ دینے کا الزام  لگا رہی ہیں۔

‏راملا کے پران پرتیشٹھا میں وزیر اعظم نریندر مودی نے خصوصی مہمان کے طور پر  شرکت کی اور رام للا کو نسب  کیا  ۔وہ خود آر ایس ایس کے سابق رکن ہیں اور ہندوتوا کے کٹر حامی بھی  ہیں۔ تقریب کی صدارت کرنے والے مودی نے اسے ملک کے لئے ایک تاریخی اور مبارک لمحہ قرار دیا اور رام راج  کے شروع ہونے  کا اعلان   بھی کیا ۔

‏اپنے تقریر  میں مودی نے سبھی دھرموں  کا ذکر   کیا اور رام راج میں انکی اہمیت بھی بتائی ۔لیکن مسلمانوں اور عیسائیوں کا نام نھیں لیا   ۔اس طرح رام راج کے حوالے سے  مودی کے ویزن  میں مسلمان اور عیسائی شامل نہیں ہیں۔ ان دو  اقلیتی مذہب کے   ماننے والوں کو  خصوصا ہندوتوا گروہوں کی طرف سےروزانہ  مختلف قسم کے امتیازی سلوک، ہراسانی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس  طرح صاف ظاہر ہے کہ  رام راج میں مسلمانوں اور عیسائیوں   کے  ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جائے گا ۔

نفرت کی ایک  نئی

رام للا کے پران پرتیشٹھا کے مو قع  پر ملک بھر میں فرقہ وارانہ تشدد اور نفرت پر مبنی جرائم کی ایک  نئی لہر نے جنم لیا ہے ۔ کئی علاقوں میں  ہندوتوا ہجوم نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر حملہ کرکے ، ڈرا دھمکا کر اپنی فتح کا جشن منایا۔‏ مہاراشٹرا ممبئی میں، جہاں ماضی میں کئی فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئی تھیں ہندوتوا وادی غنڈوں نے وہاں امن و امان ہمہ آہنگی کا خیال کئے بغیر کئ ریلیاں  نکالیں اس کے ساتھ ہی میرا روڈ پر مسلم دکانوں، گاڑیوں اور انکے پراپرٹی کے ساتھ توڑ پھوڑ کی۔

سرکاری عملے نے فساد مچا رہے ہندوتوا وادی گروہوں پر کاروائی اور امن و سلامتی بحال کرنے کے بجائے مبینہ طور پر مسلمانوں کی کئی گھروں اور دکانوں کو بلڈوزر کا استعمال کر کے مسمار کر دیا گیا۔ ایسے واقعات کے ذریعے ہندوتوا وادی گروہ پہلے مسلم علاقوں میں  بھڑکاؤ ریلیاں ، نفرت انگیز تقریریں و فساد برپا کرتے  ہیں  ۔ لیکن بعد میں  سازش کے تحت ہر حال میں خامیازہ مسلمانوں کو اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ انہیں   کو  پیٹا جاتا ہے ، انکے  دکانوں اور مکانوں  کو مسمار کیا جاتا ہے  اور  آخر میں گرفتاری بھی انہیں کی ہوتی ہے ۔

اِتنا ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہبی مقامات کی بے حرمتی اور نفرت انگیز مارچ اور مار پیٹ کی اطلاعات بھی میڈیا میں رپورٹ کی گئی ہیں۔ بہر کیف رام للا کا پران پرتسٹھا  صرف ایک  مذہبی جشن ہی نہیں  بلکہ ہندوتوا دودی فسطائی طاقتوں کا اقلیتی گروہوں پر خاص کر مسلمانوں پر فتح کا مظاہرہ بھی تھا۔یہ تقریب اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ہندوستان حقیقت میں اب ایک سیکولر ملک نہیں رہا۔ اس تقریب کے موقع پر جس طرح سے ہندو وادی گروہوں نے ملک کے کئی حصوں میں اقلیتی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی،نفرت انگیز نعرے لگائے ،ان کے مکانوں اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کی ،اقلیتوں کو درپیش بے پناہ چیلنجوں اور خطرات کی بھی  یقین دہانی کراتی ہے۔

ہندتوا فسادیوں  کو ملی کھلی چھوٹ اور ان کے خلاف ایکشن نہ لینا،اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ کس طرح سے اقلیتی قوم خصوصا مسلمان اور عیسائی اپنے ہی ملک میں  دوسرے  درجے کے شہری بن کر رہ گئے ہیں۔جس طرح سے ہندوتوا وادی  گروہوں نے اس موقع پر جشن منایا اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے   سیاسی مفادات کے لیے ہندو مذہب اور رام کی وراثت کو ہائی جیک کر لیا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top