اتر پردیش کے وارانسی میں واقع گیان واپی مسجد کے قانونی ملکیت کے دعوے کو لیکر ، 1991 سے ہندو اور مسلم گروہوں کے درمیان قانونی لڑائی چل رہی ہے ۔ حالانکہ الہٰ باد ہائی کورٹ کے اسٹے لگانے کے کافی لمبے عرصے کے بعد ٢٠١٩ میں ہی پھر سے اس کیس کی سنوائی میں کافی تیزی آئی ہے.بار بنچ کی رپورٹ کے مطابق ، وارانسی کی عدالت نے تین دہائیوں کی قانونی چارہ جوئی کے بعد آخر کار آج ایک جزوی فیصلہ میں ہندوؤں کو گیان واپی مسجد کے جنوبی تہہ خانے میں عبادت کرنے کی اجازت دی ہے۔
Varanasi Court permits Hindu parties to offer prayers, puja in southern cellar of Gyanvapi Mosque
Read more here: https://t.co/crcnnM3aoA pic.twitter.com/ajn8zmznd5
— Bar & Bench (@barandbench) January 31, 2024
ہندو فریقوں کا دعویٰ ہے کہ 17 ویں صدی میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کروائی تھی. یہ مسجد بھگوان شیو کو وقف مشہور کاشی وشوناتھ مندر سے متصل ہے۔ ہندو فریق کا ہے دعویٰ ہے کہ اورنگ زیب نے اس مندر کو جزوی طور پر منہدم کرکے مسجد بنوائی تھی ، پانچ ہندو عورتوں نے دو سال پہلے مسجد کے احاطے میں عبادت کا حق مانگا تھا ۔
عدالت کے اس فیصلے کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ وی ایچ پی اور آر ایس ایس جیسے ہندو قوم پرست گروہ جلد ہی دیگر مساجد اور اقلیتی مذہبی مقامات کو بھی حاصل کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ موجودہ حکومت کا ان ہندو گروہوں کو براہے راست سپورٹ حاصل ہے .
مزید پڑھیں- گیان وا پی کیا بابری کی راہ پر چل پڑی ہے ؟
بابری مسجد کے بعد گیان وآپی مسجد کو قانونی حفاظت کے باوجود ،عدالتیں اس کیس میں سنوائی کر قانون کا کھلا مذاق اڑا رہی ہیں . یہ کیس اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان اب صرف براے نام ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے .
گیان واپی مسجد معاملہ ہندوستان کے ادارہ جاتی زوال کی ایک بہترین مثال ہے، خاص طور پر عدلیہ جو قانون کی حکمرانی ، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے میں بالکل نناکام رہی ہے۔ بلکہ عدلیہ ہی ان سارے معاملات کو اس حد پہنچانے میں براہ راست ذ مہ دار ہے.بابری مسجد کی طرح گیان واپی مسجد کو بھی ہندو فریقوں کے حق میں دیے جانے کا قوی امکان ہے .
مزید پڑھیں- گیان واپی مسجد تنازعہ: ایک مختصر تاریخ